Wednesday, April 24, 2024

Amir Muqam and PMLn

 

ن کا مقام 

امیر مقام پاکستان کی سیاست کا ایسا نام ہیں کہ جس بھی پارٹی میں رہے ان کے تعلقات ہمیشہ’’ ٹاپ لیڈرشپ‘‘کے ساتھ رہے۔ان پرعہدوں اور نوازشات کی بارش ہی ہوتی رہی ۔اب ان کے پاس کیا ’’گیدڑسنگھی ‘‘ ہے یہ معلوم نہیں ۔جب تک پرویز مشرف زندہ اور طاقت میں رہے اس وقت تک تو ان کا ذاتی پستول امیر مقام کے پاس کسی گیدڑسنگھی سے کم نہیں سمجھا جاتا تھا۔سوات کے امیرمقام کا سیاست میں جنم پرویز مشرف کے بنائے لوکل گورنمٹ سسٹم میں 2001میں ہواجب وہ پہلی بار یونین کونسل کے ناظم بن گئے۔ایک سال بعد ہی پرویزمشرف نے عام انتخابات کروائے تو انہوں نے سوات سے متحدہ مجلس عمل (یہ قاضی حسین احمد کی قیادت میں پاکستان کی مذہبی جماعتوں کا اتحاد تھا جس میں مولانا فضل الرحمان اورجماعت اسلامی دوبڑی جماعتیں شامل تھیں)کے ٹکٹ پرپراپنا قومی اسمبلی کا پہلا الیکشن لڑااور اے این پی کے سفیر خان کا شکست دے کرقومی اسمبلی پہنچ گئے۔

یہاں سے امیر مقام کی اصل سیاست کا آغازہوتا ہے ۔وہ جیت کر تو ایم ایم اے کے ٹکٹ پر اسمبلی آئے تھے اوریہ اتحاد اس وقت مسلم لیگ ق کا مخالف تھا۔پرویز مشرف کی چھتری مسلم لیگ ق پر تھی اور ایم ایم اے کے رہنما مولانا فضل الرحمان قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اورصوبہ خیبرپختونخوا میں بھی متحدہ مجلس عمل کی حکومت تھی۔اب ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ امیر مقام اپنی پارٹی میں رہ کر ایم ایم اے سے وفاداری کرتے اور اپوزیشن کی سیاست کرتے لیکن وہ اپوزیشن کی سیاست کے
لیے پیدا ہی نہیں ہوئے تھے۔انہوں نے اس وقت کے ڈکٹیٹرپرویزمشرف سے قربت تلاش کرنا شروع کردی۔بہت ہی جلد انہوں نے خود کو پرویز مشرف کے اتنا قریب کرلیا کہ پرویز مشرف نے امیر مقام کو اپنا ذاتی اور بیش قیمتی گلوک پستول تحفے میں دے دیا۔امیر مقام نے اس کے بعد اپنی جماعت متحدہ مجلس عمل کی طرف مڑ کر نہیں دیکھا۔وہ عام زبان میں لوٹے بن گئے اورق لیگ میں شامل ہوگئے ۔حیران کن بات یہ بھی تھی کہ ان کی جماعت متحدہ مجلس عمل اور اپوزیشن لیڈر مولانا فضل الرحمان نے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی ۔وہ ق لیگ میں شامل ہوئے اور پرویز مشرف نے ان کو پانی و بجلی کا وزیربنادیا۔2008کا الیکشن انہوں نے مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر لڑا اور پھر جیت گئے ۔
وہ مسلم لیگ ق میں رکن قومی اسمبلی رہے لیکن بس ایسے ہی رہے کہ ان کی مزید آگے بڑھنے کی جدوجہد جاری رہی۔مسلم لیگ ق کے بعد انہوں نے اپنے محسن پرویزمشرف کی سب سے بڑی مخالف اور دشمن نمبر ون نوازشریف کی پارٹی کو اپنی اگلی منزل کے لیے منتخب کرلیا۔ایک طرف ڈکٹیٹر سے پستول کا تحفہ پانے اور مسلم لیگ ق کے صدر چودھری شجاعت کو ان کا ساتھ نہ چھوڑنے کا حلف دینے والے امیر مقام تھے تو دوسری طرف پرویز مشرف کے ہاتھو ں اپنا تختہ الٹوانے اور اپنی پارٹی سے بے وفائی کرنے والے چودھری شجاعت سے ناراض نوازشریف تھے۔لیکن امیر مقام کی کشش اس قدر زیادہ تھی کہ دونوں نے اپنا ماضی بھولنے کا فیصلہ کرلیا۔امیر مقام کونوازشریف نے نہ صرف اپنی پارٹی میں شامل کیا بلکہ انہیں پارٹی کا سینئرنائب صدر کا عہدہ بھی ساتھ ہی پیش کردیا۔
نوازشریف نے امیر مقام کو صرف اپنی پارٹی میں شامل ہی نہیں کیا بلکہ انہیں 2013کا الیکشن لڑنے کے لیے ریکارڈ چار ٹکٹ پیش کردیے۔ایک ایسے وقت میں جب نوازشریف کی پارٹی کا حکومت میں آنا طے شدہ تھا اس وقت بھی پارٹی کے چار ٹکٹ صرف ایک امیر مقام کو دے دیے گئے اور امیر مقام نے چار سیٹوں سے الیکشن لڑا اورچاروں ہی سیٹیں ہار گئے۔انہوں نے پہلی بار سوات کے ساتھ ساتھ پشاور سے بھی الیکشن لڑالیکن ان کو ہر جگہ سے ہی شکست ہوگئی ۔الیکشن میں ن لیگ کے اور بھی بہت سے عہدیداروں کو شکست ہوئی لیکن نوازشریف نے امیر مقام کا اپنی حکومت میں خاص خیال رکھا۔ان کو سوات میں ترقیاتی کاموں کے ٹھیکے دیے۔سرکاری عہدے بھی دیے رکھے۔
خیبرپختونخوا میں مسلم لیگ ن ایک بڑی پارٹی ہوتی تھی اور خاص طورپر ہزارابیلٹ تو پورا ہی ن لیگ کا تھا ۔ امیر مقام کے آنے سے مسلم لیگ ن کے خیبرپختونخوا میں اختلافات شروع ہوگئے ۔ نوازشریف پورے صوبے کو صرف امیرمقام کی نظر سے دیکھنے لگے تو ان کے دیرینہ ساتھی جو ان کی مشکلات میں ان کے ساتھ رہے وہ اس ’’امیرانہ ‘‘محبت سے اکتانے لگے ۔صوبے میں پارٹی سکڑتی گئی ۔پہلے پشاور اور باقی اضلاع میں پارٹی کا خاتمہ ہوا اور پھر ن لیگ کے مضبوط گڑھ ہزارا سے بھی ن لیگ کی چھٹی ہوتی گئی ۔امیر مقام نے 2018میں بھی سوات سے الیکشن لڑااور پھر ہار گئے ۔لیکن نوازشریف کی امیر مقام سے محبت کا عالم یہ نکلا کہ انہوںنے دس سالوں سے اپنا الیکشن تک نہ جیتنے والے امیر مقام کو صوبہ خیبرپختونخوا کا پارٹی صدر بنادیا۔امیر مقام کے صدر بننے سے ن لیگ میں صوبائی سطح پر شدید اختلافات پیدا ہوگئے۔ماضی میں ن لیگ کی پہچان سمجھے جانے والے سرانجام خان، پیر صابر شاہ،مہتاب عباسی اور اسی طرح کے دوسرے رہنما پس منظر میں چلے گئے۔کچھ غیرفعام ہوکر گھروں میں بیٹھ گئے،کچھ پی ٹی آئی میں چلے گئے اور کچھ ناراض ہوکر الگ ہوگئے۔پورے صوبے میں پارٹی ٹوٹتی رہی لیکن مسلم لیگ ن کی قیادت نے سوائے امیر مقام کے اور کسی سے تعلق نہ رکھا۔ن لیگ کو جب بھی خیبرپختونخوا میں کوئی جلسہ کرنا ہوتا تو امیر مقام نوازشریف یا مریم یہاں تک کہ شہبازشریف کا جلسہ بھی سوات میں کروادیتے اس سے پارٹی خوش ہوجاتی۔امیر مقام کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جب عدم اعتما د کے بعد شہبازشریف وزیراعظم بنے تو اس وقت بھی انہوں نے امیرمقام کو اپنا معاون خصوصی بنالیا تھا۔
کسی بھی شخصیت کا کسی پارٹی میں ترقی کرجانا۔اعلی عہدے لے لینایہاں تک کہ قیادت کے انتہائی قریب ہوجانا نہ کوئی بری بات ہے اور نہ ہی اچنبھے کی لیکن مسائل اس وقت شروع ہوتے ہیں جب ایک کو نوازنے کے چکر میں باقی کارکنوں کو محروم کردیا جاتا ہے۔خیبرپختونخوا میں یہاں ن لیگ ختم ہورہی تھی تو وہیں ایک نام اختیار ولی خان اس وقت سامنے آیا جب پی ٹی آئی کے دورمیں نوشہرہ میں ضمنی الیکشن ہوا۔صوبے میں بھی پی ٹی آئی کی حکومت تھی اور مرکز میں بھی اور نوشہرہ سابق وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویزخٹک کا آبائی حلقہ بھی ہے ۔اس حلقے سے الیکشن لڑنا ایک مشکل کام تھا لیکن اختیار ولی خان نے خود کو الیکشن کے لیے پیش کیا۔حالانکہ اگر امیر مقام چاہتے تو وہ خود یا اپنے بھائی بیٹے کے لیے یہ ٹکٹ آسانی سے لے سکتے تھے لیکن انہوں نے اس الیکشن میں اترنے سے خود کو روک لیا ۔یہ الیکشن اختیار ولی نے لڑا اورپی ٹی آئی کی حکومت کے باوجود وہ جیت گئے ۔اس جیت نے اختیار ولی کو پورے ملک میں شہرت کی بلندی پر پہنچادیا لیکن ان کی اپنی پارٹی میں ان کی وہ پذیرائی شاید نہیں ہوسکی ۔
یہ دوربھی گزرگیا ۔موجودہ الیکشن میں بھی خیبرپختونخوا میں الیکشن لڑانے اور پارٹی کی قیادت امیرمقام کے ہی پاس تھی ۔نوازشریف کو مانسہرہ سے الیکشن لڑنے کی پیشکش بھی بطور پارٹی صوبائی صدر امیر مقام نے ہی کی تھی ۔نوازشریف مانسہر سے شکست کھاگئے لیکن مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پرپہلی بار امیر مقام جیت گئے ۔اس جیت کے بعد امیر مقام کو فوری وزیربنادیا گیا۔اس کے ساتھ ساتھ ن لیگ میں آوازیں اس وقت اٹھنا شروع ہوگئیں جب امیر مقام کے بھائی کو خیبرپختونخوااسمبلی میں اپوزیشن لیڈرنامزدکردیاگیا۔یہاں تک بھی شاید لوگ برداشت کرجاتے لیکن کمال یہ ہوا کہ سینیٹ کے الیکشن آئے تو پورے کے پی میں شاید ایک ہی نشست مسلم لیگ ن جیت سکتی ہے اس ایک اکلوتی نشست پر بھی امیرمقام کے بیٹے نیازامیرکا انتخاب کیاگیا۔جب یہ سینیٹ کا ٹکٹ کا بھی امیر مقام کو پیارا ہواتو پھر صوبے میں ن لیگ کی لڑائی کھل کرسامنے آگئی ۔ اس فیصلے پراختیار ولی خان
اختیار ولی خان

نے سوشل میڈیا پر کھل کر تنقید کی ۔اختیار ولی خان نے اپنی پوسٹ میں یہاں تک لکھا کہ ’’میں 34سال سے ن لیگ سے وابستہ ہوں۔ میں سمجھتا تھا کہ آپ کی پارٹی سے وفاداری ہی سب سے بڑی سفارش ہوتی ہے لیکن آج میں ہر پارٹی کے کارکن کومشورہ دیتا ہوں کہ سیاست جس مرضی پارٹی میں کریں لیکن پارٹی میں اپنی سفارش کا بہتر بندوبست کرکے رکھیں ورنہ عمر گزرجائے گی اور قیادت کو آپ کے ہونے یا نہ ہونے کا احساس بھی نہیں ہوگا‘‘ مجھے اختیار ولی خان کے ان الفاظ نے بہت ہی بے چین کیا۔یہ کالم لکھنے کی وجہ بھی یہی الفاظ ہیں۔ہماری تمام ہی سیاسی جماعتوں کا اسی طرح براحال ہے۔ کارکنوں کی قربانیاں اور وفاداریاں نظر انداز کرکے پارٹی کی بجائے صرف قیادت کوفائدہ پہنچانے والے لوگ آگے لائے جاتے ہیں۔امیر مقام جیسے لوگوں کو پارٹیوں میں اعلیٰ ’’مقام‘‘مل جاتا ہے اور عام کارکن اسی طرح دکھی دل کے ساتھ کنارہ کش ہوجاتے ہیں۔پارٹی کی سینئرلیڈرشپ بھلے امیرمقام کو بھی جائز مقام دے لیکن باقی لوگوں کے ساتھ بھی منصفانہ سلوک کرلے تو ملک میں جمہوریت پھلتی رہے اورسیاسی پارٹیوں میں بھی کچھ جمہوریت کا عمل دخل باقی رہے۔

Sunday, March 31, 2024

Choking lungs of ‘Punjab’

 

Delhi and Lahore — the smoggiest cities of  ’em all


 Governments of both — India and Pakistan — need to clear the air about the steps being taken to tackle the harmful effects of ‘toxic’ air that the residents of both countries are breathing

By

Jabbar Chaudhary in Lahore

Nikita Sharma in Chandigarh 


Pic Credit Dunya Tv

Without rain for two months, Lahore saw its air quality index (AQI) touching the dangerous level of 450 tiny particulate matter (PM2.5) on December 16, 2023. It was 30 times higher than the World Health Organization’s recommended maximum average daily exposure and considered hazardous. As a result, the Punjab Government had to declare a ‘smog emergency’ in Lahore and nearby districts. Schools were shut, markets closed and face masks were made mandatory. For the first time in the history of Pakistan, the government made arrangements to induce artificial rain in Lahore to provide temporary relief from the hazardous effects of poor air quality.

Artificial rain was induced in an attempt to lowering pollution levels in Lahore. The Punjab Government used cloud seeding to create rain in 10 locations around the city using a small Cessna plane with UAE’s cooperation. Citizens experienced shower-like rain in different locations. Environment Minister in Punjab, Bilal Afzal, claimed that cloud seeding and artificial rain was introduced for the first time and it was a success. He, however, admitted that the rainfall was minimal and scanty. He felt elated that due to this the air quality of Lahore improved significantly and the AQI dropped to 150 PM. However, the minister also said that the benefits of this rain were short-lived as the pollution was back to square one after two to three days.

Hazardous air quality is not limited to Lahore. India’s capital city — Delhi — ranks ahead of it. Both cities top the list of most-polluted cities of the world.

 

This “toxic” air that we are breathing is now transcending borders and affecting many lives. Smog is a common cause for concern, as nationals of both -- India and Pakistan -- are severely affected. The citizens of both countries are breathing the same toxic air, which is causing severe health issues. The situation is only getting worse with each passing year.

In response to the alarming and dangerous situation, the Delhi Government in India also reportedly considered the implementation of artificial rain to counter smog, but it could not bring it to fruition. The Aam Aadmi Party government in India’s national capital also derived an odd-even formula for vehicles to ply in order to reduce pollution level, but there was no data to prove the efficacy of the experiment as well.
IIT Kanpur, a premier institute in India, undertook an experiment last year, wherein a Cessna aircraft was flown from its flight laboratory with cloud-seeding attachments. "These attachments were procured from a manufacturer in the US and the modifications in the aircraft were approved both by the manufacturers of Cessna and DGCA. The test flight spread the agents using a flare as is standard practice," the institute had revealed in the release.

The Global Alliance on Health and Pollution estimates that every year, air pollution steals 9 million lives, 2% of GDP and 7% of healthcare costs. It also reported that 128,000 Pakistanis die annually due to air pollution-related illnesses.

An air quality life index study suggests that since 1998, average annual particulate pollution has increased by 20 per cent, cutting 0.9 years off the lives of the average Pakistani resident over these years. The most-polluted areas of the country are in northeast Punjab and northern Sindh, where residents would gain over five years of life if particulate pollution could be permanently reduced, according to WHO guidelines.

Punjab, be it in the Indian side or that in Pakistan, starts experiencing periods of low visibility from October onwards and this continues till February. This is commonly referred to as smog (combined from smoke and fog). The intensity, duration and spatial extent of these events have increased over the last few years. Smog causes severe health problems such as burning and irritation of the eyes and other respiratory problems. Prolonged or heavy exposure to hazardous air causes various complications such as asthma, lung damage, bronchial infections, stroke and shortened life expectancy.

Dr Atif Kazmi, a senior consultant dermatologist at Lahore University Teaching Hospital (UOL), says smog causes serious damage to health. He advised citizens to avoid coming in contact with smog, as it can cause breathing difficulties and infections. He said wearing face masks and staying inside are the two easiest ways to avoid rushing to hospitals with respiratory issues, eye infections and skin diseases.

Considering growing concerns regarding smog and its serious effects on health, the Lahore High Court took cognizance of the fact and constituted a ‘Smog Commission’. After considerable discussions and thorough research, this commission submitted its reports to the
High Court, which identified an interesting fact. The report stated: The Indo-Gangetic Plains, composed of the Indus (areas in Pakistan and parts of Punjab and Haryana in India) and the Gangetic Plains of Uttar Pradesh, Bihar and West Bengal in India, Nepal and Bangladesh (Figure G.6), have been identified as one of the most-polluted regions due to high aerosol concentration and a related episode of haze, fog and smog.”

 



The same report suggests and experts also believe that the main cause for smog and air pollution were vehicular and industrial emissions, dust clouds, fossil fuel-fired power plants and coal being burned by thousands of brick kilns spread across the province all contribute to the problem. A Food and Agriculture Organization’s source appropriation study in 2020 singles out power producers, industry and the transport sector in particular as culprits. Waste burning is considered another source of smog. It includes burning of solid wastes, rice stubble and sugarcane fields. Various studies have linked smog to the burning of rice stubble in the Indian states of Punjab, Haryana, and Uttar Pradesh. During 2016 alone, around 32 Metric Tonnes of paddy stubble was estimated to have been burnt in the Indian state of Punjab. In Pakistan’s side of Punjab, too, the practice of burning stubble is very common among farmers before the wheat cultivation season.

Asif Mahmood, a senior journalist and special correspondent at Express Tribune, who reports on environmental issues, reveals that the government has no authentic research and data on smog. Only two stations are working in Lahore to monitor the air quality. However, the Punjab Government started uploading air quality data on its website daily after the High Court’s order. Mr Mahmood is also of the view that smog is a common and shared problem between India and Pakistan and it should be dealt seriously. He said multiple forums are available between the two countries so the issue of smog can be discussed to avoid blame game and stubble-burning allegations against each other.

On the other hand, Gopal Singh, a political activist and a farmer from Amritsar in Punjab, India, said a strict ban has been imposed on stubble burning, but some farmers still violate the law and burn the paddy crop remains to clear the fields for the next crop — wheat. As a result, people start experiencing breathing issues due to the polluted air and visits to hospitals become frequent.

Ahbab Singh Grewal, spokesperson of the Aam Aadmi Party government in Punjab, India, said the share of stubble burning in smog is 17 per cent. He said his government was not only encouraging a ban on stubble burning, but was also incentivising farmers to sell stubble to public sector powerhouses that are being run by the Punjab Government. “We have stated a policy, wherein the AAP government is discouraging sowing rice crops in the state to save water and environment,” he said.

Smog is a serious threat to the region and most experts citing the recommendations of the Institute of Strategic Studies Islamabad believe that although air pollution in Pakistan is a complicated challenge, some concrete and solid steps must be taken to protect public health and the environment. Among the list of long-term actionable solutions given and proposed for the reduction of smog and improve air quality are — ban on substandard fuel, promotion of hybrid and electric vehicles and increasing public transport, production of renewable energy to get rid of fossil fuels, management of industrial pollution, monitoring of recycling, increasing tree plantation and incentivizing research and development in the field of smog and zero tolerance on stubble and waste burning.

Syed Mohammad Ali, a nonresident scholar at the Middle East institute, who also teaches at Georgetown and Johns Hopkins Universities, wrote an article in Foreign Policy magazine on Lahore air pollution, where he said: “In the absence of comprehensive and concerted efforts to combat air pollution, Lahore, once known as the ‘city of gardens’ is tragically choking on toxic air. Instead of looking forward to the welcomed reprieve of winter months, Lahore’s 13 million residents now must brace themselves for another bout of smog, which has acquired the status of a fifth season.”

With an alarming situation arising every year, especially during the winter months, it is imperative for the governments of both countries to sit down and work out a solution to this grave issue that stares at us. Governments of both — India and Pakistan — need to clear the air about the steps being taken to tackle the harmful effects of ‘toxic’ air that the residents of both countries are breathing. Otherwise the day’s not far when this will turn into a pandemic where residents of both countries will be seen making a beeline outside hospitals, gasping to get some fresh air!

Expert speaks

Rafay Alam, an activist and lawyer, says merely believing that stubble burning is the only major cause for smog would not be correct. He refers to an Urban Unit study that clearly says that vehicular and industrial emissions are two main contributors of smog in the region. He believes that no short-term solution was workable, hence the governments must understand the fact that environmental issues cannot be solved overnight by ad-hoc policies such as closing schools and businesses, spraying water on roads or cloud seeding, etc. He thinks that long-term planning and implementation of concrete strategies were the only way forward.

FACTFILE 

AQI zero-50: Good

AQI 51-100: Satisfactory

AQI 101-200: Moderate

AQI 201-300: Poor

AQI 301-400: Very poor

AQI 401-450: Severe

AQI above 450: Severe plus

Do your bit to reduce smog:

·         Drive less, instead pool a car

·         Avoid using substandard fuel

·         Promote hybrid or electric vehicles and encourage using public transport

·         Service your vehicles regularly

·         Avoid stubble burning

 Writers are East-West center Alumnus and part of Pak India Journalist Exchange programme 


Sunday, March 10, 2024

ASIF ALI ZARDARI NEW PRESIDENT OF PAKISTAN

 

 آصف علی زرداری دوسری مرتبہ منتخب پہلے صدر


پاکستان میں جمہوریت کمزور اور مختلف مسائل کا شکارضرور ہے اور اس جمہوریت کا سفر سست ہی سہی لیکن کسی نہ کسی صورت جاری بھی ہے۔ پاکستان میں عین جمہوری اور آئینی طریوے سے منتخب صدرکاحلف اسی جمہوری سفر میں ایک سنگ میل کہاجاسکتا ہے۔ہفتے والے منتخب ہونے والےصدرآصف علی زرداری نے آج (اتوار) حلف اٹھالیا ہے۔آصف علی زرداری دوسری بار اس عہدے پر پہنچنے والے پہلے شخص ہیں۔

 یہ وہی آصف علی زرداری ہیں جواس ملک میں گیارہ سال تک جیلوں میں قید رہے۔کیوں قید رکھا گیا اور پھر الزامات ثابت کیے بغیرچھوڑ کیوں دیا گیا یہ سوالات تاریخ کا حصہ ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ ان سے کچھ برآمد نہیں کیا جاسکا۔انہوں نے قانون کاجبر برداشت کیا لیکن کبھی شکایت نہ کی ۔یہ وہی زرداری ہیں جنہوں نے اپنی اہلیہ محترمہ بے نظیربھٹو کی شہادت کے بعد پاکستان کھپے کا نعرہ لگاکر اپنے کارکنوں کی درست سمت میں رہنمائی کی۔بے نظیر کی شہادت کے بعد آصف علی زرداری ایک نئےسیاسی روپ میں سامنے آئے۔

یہ سیاسی روپ تھا ایک مفاہمت پر یقین رکھنے والے سیاسی رہنما کا۔مسائل کے حل کے لیے بات چیت پریقین رکھنے والے سیاسی رہنما کا۔دیواریں کھڑی کرنے کی بجائے دیواروں میں راستے بنانے والےسیاسی رہنما کا۔سیاسی حلیف ہی نہیں بلکہ سخت ترین سیاسی حریفوں کے ساتھ بات چیت کرنے والے سیاسی رہنماکا۔ناقابل یقین کو قابل یقین بنانے والے سیاسی رہنماکا۔حکومت سازی کے لیے جوڑتوڑکے ماہرسیاسی رہنما کا۔اپنے اسی سیاسی روپ کی وجہ سے وہ مفاہمت کے بادشاہ کہلائے۔جمہوری اندازمیں حکومتیں گرانے اوربنانےکے ماہر کہلائے۔یہ وہی زرداری ہیں جن کی پارٹی 2008میں اقتدارمیں آئی تو انہوں نے اپنی سخت ترین سیاسی مخالف ن لیگ کو شامل اقتدارکرلیا۔اورکابینہ کو ڈکٹیٹرپرویز مشرف سے حلف بھی دلوادیا۔یہ وہی مشرف تھے جنہوں نے ن لیگ کی حکومت کو گھر بھیجا اور ملک میں مارشل لا لگادیا تھا۔ن لیگ نے راہیں جداکیں تو ان چودھری برادارن کو ساتھ ملالیا جنہوں نے ذوالفقارعلی بھٹو کوپھانسی کی سزالکھنے والا قلم خریدرکھا تھا۔اس پرویزالہی کو ڈپٹی وزیراعظم بنادیا جس پربےنظیربھٹو کی شہادت کا الزام تھا۔

وہ پہلی بار ایوان صدر میں بیٹھے تو پاکستان کے آئین میں متفقہ طورپراٹھارویں ترمیم کرکے صدرکے سارے اختیارات پارلیمنٹ کو سونپ دیے۔صوبہ سرحد کوخیبرپختونخواکا نیا نام دیا اور اس ملک کو متفقہ این ایف سی ایوارڈ ملا۔اسلام آباد ہائی کورٹ کا قیام ہواتوآئینی عہدوں پرتعیناتیوں کےنئے قوانین بنائے گئے۔انہوں نے میموگیٹ اسکینڈل بھگتا اور اینٹ سے اینٹ بجانے کے بیان کی وجہ سے خودساختہ جلاوطنی بھی بھگتی لیکن وہ ہربارمفاہمت کرکے واپس آئےیہ ان کی بڑی سیاسی کامیابی  ہے کہ  پندرہ سال سے مسلسل سندھ میں ان کی حکومت ہے اور وہ خود دوسری بار ایوان صدر کے مکین ہوئے ہیں۔

بہت سی اچھی باتیں یہاں انکے کریڈٹ پرہیں تو وہ کچھ کاموں کے لیے بدنام بھی ہیں۔ ان پر سیاست میں بے تحاشا پیسا چلانے کا الزام ہے۔ ہارس ٹریڈنگ سے سینیٹ اور قومی اسمبلی کے ارکان خریدنے کا الزام ہے۔کرپشن کے ایک گہرے تاثر کاالزام ہے۔وہ زرداری آج پاکستان کے منتخب صدر کا حلف اٹھاچکےہیں۔زرداری جب پہلی بار صدر بنے تھے تواس وقت ان کی اپنی حکومت تھی اور وزیراعظم ان کی اپنی پارٹی کا تھا لیکن اس بار حکومت مسلم لیگ ن کی ہے ۔ پیپلزپارٹی حکومت میں اس طرح شامل ہے کہ کابینہ کا حصہ فی الحال نہیں ہے لیکن ن لیگ کی حمایت اور اشتراک سے تمام آئینی عہدے لینے میں کامیاب ہوئی ہے۔ زرداری کا دور پہلے دور سے کتنا مختلف ہوگا یہ سوال کا جواب آنے والے حالات دیتے رہیں گے۔

Sunday, August 14, 2022

Karbala and Imam Hussain

کربلا.. حسین اور یزید کون..؟ 

کربلا صرف ایک معرکہ نہیں ، ایک واقعہ نہیں ایک سانحہ نہیں ایک جنگ نہیں ایک لڑائی نہیں بلکہ کربلا ایک سبق کانام ہے۔ایک فلسفے کا نام ہے ایک کردارکانام ہے۔ یہ سبق ہے ہمت کا جرت کا انکار کا ظلم کے خلاف ڈٹ جانے کا ۔حق پر کھڑے رہنے کا ۔ جان کی پرواہ کیے بغیراصولوں پر اڑجانے کا ۔تخت و تاج کو جوتے کی نوک پررکھنے کا۔ کربلا سبق ہے سچائی کا۔دلیری کا۔کربلا نام ہے ظالم کے مقابلے میں مظلوم کا ساتھ دینے کا۔ کربلا نام ہے اندھیرے کے مقابلے میں روشنی کی تلاش کا۔کربلا نام ہے طاقت ور کے مقابلے میں کمزورکا ساتھ دینے کا۔ کربلا نام ہے ظلم ۔ناانصافی۔ جھوٹ۔لالچ ۔دھونس اور دھاندلی کے خلاف آوازاٹھانے کا ۔ کربلا کا معرکہ ختم نہیں ہوا ہم آج بھِی کربلا میں ہیں۔ آج کشمیربھی کربلا ہے ۔آج فلسطین بھِی کربلا ہے۔شام کربلا ہے یوکرین کربلا ہے۔اپنی آزادی اور اصولوں کی جنگ لڑتا ہرشخص حسین ہے ۔ نہتے کشمیری ہوں یا فلسطینی ان پرطاقت کے ذریعے اپنی مرضی مسلط کرنے والاہر کوئی یزید ہے۔ ہر ظالم یزیدہے ہر مظلوم حسین ہے۔باطل یزید ہے حق حسین ہے۔ناانصافی یزید ہے انصاف حیسن ہے۔اقتدارکاطلب یزید ہے۔حکومت کو ٹھوکرمارتا حیسن ہے۔شر یزید ہے خیر حسین۔ باطل یزید ہے اور حق حیسن ہے۔ بدی یزید ہے اور نیکی حیسن ہے۔اس یزید اورحیسن میں کشمکش نہ کل ختم ہوئی تھی نہ آج ختم ہوئی ہے۔جب تک ظلم باقی ہے یہ لڑائی رہے گی۔ جب تک اندھیرنگری باقی ہے یہ لڑائی رہے گی۔ جب تک ناانصافی باقی ہے جب جب انصاف کا قتل ہوگا،منصف کیس کی بجائے فیس دیکھ کرفیصلے صادر کریں گے یہ لڑائی رہے گی۔جب تک اتحاد کے بجائے نفرت کی تبلیغ ہوگی، تقیسم کی تبلیغ ہوگی ۔دھڑے اور گروہ بندی کا پرچار ہوگا یہ لڑائی رہے گی۔ جب تک اپنے ہی ملک کے لوگوں کو ذات برادری ۔سندھی پنجابی۔ بلوچی اورپٹھان کے ترازوں میں تولا جائے گا یہ لڑائی رہے گی۔جب تک اقتدارپانےاور کرسی کے لالچ میں سیاسی لیڈرعوام کےبجائے کسی اورطرف دیکھِیں گے یہ لڑائی رہے گی۔جب تک طاقت کے مراکز کو اپنے ساتھ ملانے ان کو نیوٹرل رہنے کے بجائے اپنا ساتھی بنانے کی دوڑہوگی یہ لڑائی رہے گی۔ہمارے درمیان حیسن بھِی ہے اور یزید بھی۔شہدا کے خون کو متنازعہ بنانایزید کی سوچ ہے اپنے وطن کے لیے جان قربان کرنا حسینیت کا راستہ ہے۔اپنے دور کے یزیدوں کو پہچانویزیدیت تمہیں توڑنے کے لیے ہے اورحسینیت جوڑنے کے لیے ہے۔یزیدیت قوم کا خزانہ لوٹنے کا نام ہے اورحسینت قوم کی امانت بچانے کا نام ہے۔یزیدیت ہمارے بچوں کو جاہل رکھنے اورحیسینت علم کا نام ہے۔یزیدیت اندھیرے کی علامت اور حیسینیت روشنی کاستعارہ ہے۔یزیدیت نفرت اور حیسینت محبت کا نام ہے۔اتحاد کا نام ہے اتفاق کانام ہے۔آج پاکستان کو بحرانوں سے نکالنے کے لیے یہی اتحاد اور اتفاق کی ضرورت ہے ۔ 

Wednesday, July 27, 2022

Judiciary and Pakistan

ایک سوتیس نمبری؟

سپریم کورٹ نے ایک وزیراعلیٰ کو اتار کر دوسرے کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بنادیا ہے۔ماشاء اللہ ہماری عدلیہ دنیا کی فعال ترین عدلیہ میں سے ایک ہے۔مجھے تو یہ پراپیگنڈا ہی لگتا ہے کہ قانون کی حکمرانی میں ہمارانمبرایک سو تیسواں  ہے اور ہم آخر سے صرف تین  درجے اوپر ہیں۔ایسی درجہ بندی کرنے والے ہی نالائق ہوں گے کیونکہ ہماری عدلیہ تو انصاف ہی نہیں اس ملک کو حکمران بھی فراہم کرتی ہے۔رات کے بارہ بجے عدالتیں کھول لیتی ہے۔مدعی کو وقت دیتی ہے کہ آپ سکون سے پٹیشن تیار کرلیں ہم بیٹھے ہیں اور وصول کرکے ہی جائیں گے۔کیس سننے کے لیے اسلام آباد سے لاہورخصوصی طیاروں پر جج باہم پہنچائے جاتے ہیں۔عدالتوں میں نظریہ ضرورت زندہ رہتا ہے۔باہر سے بلواکرانصاف بھی دیدیاجاتا ہے اور ایسی درخواستیں بھی سماعت کے لیے منظورکرلی جاتی ہیں جو جرم ابھی ہوانہیں ہوتا لیکن ہونیکاامکان وغیرہ ہوسکتا ہو۔اگر کوئی لاڈلا فیصلے کی دھجیاں اڑاتا ہوا اپنی مرضی کرلے تو اگلے دن اس قدرشرافت اور متانت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے کہ کیا کہنے۔ یہ تک کہہ دیا جاتا ہے کہ ممکن ہے ہمارا فیصلہ درست طریقے سے اس تک پہنچا نہ ہو۔

ایسی عدلیہ اور کہاں دیکھی ہے کہ جو اپنے فیصلے (عمران خان لانگ مارچ کیس) کی خلاف ورزی کے مقدمے میں قانون نافذکرنے والے اداروں سے رپورٹیں منگوائے اور جب دیکھے کہ ساری رپورٹیں یہ بتارہی ہیں کہ فیصلے کی خلاف ورزی جان بوجھ کرکی گئی ہے تو عدلیہ اپنے فیصلے پر عمل نہ کرنے پر سزا کی بجائے اس کیس پر بیٹھ ہی جائے اور پھرکبھی اس کیس کی سماعت ہی نہ ہو۔ ایسی عدلیہ کہاں دیکھی ہے جو اپنے ہی ایک ساتھی کا احتساب کرنے کے لیے اس قدر تیزی سے آگے بڑھے کہ سب کو ”انصاف“ہوتا ہوا نظرآنا شروع ہوجائے۔

ایسی عدلیہ اور کہاں ملے گی جس کے دو تین جج اس قدر زیادہ کام کرنے کو پسند کرتے ہوں کہ ہر سیاسی کیس خود سننے کو ترجیح دیں۔ ایسے کام کرنیولے مائی لارڈ کہ سپریم کورٹ کے باقی جج”ویلے“ بیٹھے رہیں۔ دوتین ججوں کو انصاف فراہم کرنے میں اس قدر دلچسپی ہو کہ پوری حکومت اور اس میں شامل گیارہ جماعتیں درخواست کریں کہ مائی لارڈ باقی ججوں کوشامل کرکے فل کورٹ بنادیں تاکہ دوسرے ججز بھی انصاف دے سکیں لیکن اس درخواست کومستردکرکے کہا جائے کہ نہیں صرف یہی تین کافی ہیں۔

ایسی عدلیہ کہاں ملے گی جو ہر سیاسی مقدمے کو سننے کے لیے بے تاب نظرآئے اورجیلوں میں بند انصاف کے منتظرلوگوں کے فیصلے ان کی موت کے بعد بھی کرنے پڑیں تو خیر ہے کہ وہ تو بھیڑ بکریاں ہیں انصاف کی ضرورت تو صرف وزیراعلیٰ بننے اور وزیراعلیٰ کی کرسی چھوڑنے والوں کو ہے۔ایسی عدلیہ کہاں ملے گی جس میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کاکیس سات سال سے پڑا ہواور ابھی تک جے آئی ٹی جے آئی ٹی ہی کا کھیل جاری ہو۔ایسی عدلیہ کہاں ملے گی  جو کروڑوں ووٹوں سے اقتدارمیں آنے والوں کوایک منٹ میں اقتدار سے نکال دے اورپھر فخر سے ریمارکس دے کہ ا ٓپ فل کورٹ کیوں مانگ رہے ہیں ہم نے پانچ رکنی بینچ سے  وزیراعظم تک کو گھر بھیج رکھاہے۔ ایسی عدلیہ کہاں ملے گی جو پہلے وزیراعظم نکالتی تھی اب وہ وزیراعلیٰ نکالتی بھی ہے اور لگاتی بھی ہے۔

ایسی عدلیہ کہا ں ملے گی جو ایسے فیصلے دے کہ اس کو پہلے ہی پتہ ہو کہ گورنرحلف نہیں لے گا تو پھر اگلا بندہ کون ہوگا۔ جو یہاں تک لکھے کہ گورنر نہ حلف نہ لے تو اس ملک کاصدرخود ایک صوبے کے وزیراعلیٰ سے حلف لے اور اس حلف کا وقت بھی عدلیہ ہی بتائے۔ایسی عدلیہ کہاں ملے گی کہ اگر کوئی اپنے عہدے کی آئینی ذمہ داری پوری نہ کرے تو اس کو بلا کر سزا دینے کی بجائے اس کا کام ہی کسی دوسرے کو دے دے۔ حمزہ کا حلف اگر گورنر عمر چیمہ نہ لے تو اسپیکر قومی اسمبلی کو خصوصی طیارے پر لاہور بلوالیا جائے اور پرویزالہی کا حلف بلیغ الرحمان نہ لے تو پرویز الٰہی کو خصوصی طیارے پر بٹھا کر رات کے پچھلے پہر اسلام آباد پہنچا دیا جائے۔ایسی عدلیہ کہاں ملے گی جس کو انصاف کی کرسی پر بیٹھ کر بھی ملک کی معیشت کی فکر ہو۔جو ریمارکس دے کہ ملک کے حالات بہت خراب ہیں۔جو یہ بھی بتائے کہ ڈالر مہنگا ہورہا ہے  لیکن اپنے فیصلے میں لکھ دے کہ حلف اگر لاہور میں نہ ہوسکے تو فوری اسلام آباد لایا جائے۔

ایسی عدلیہ آپ کو کہاں ملے گی جس کا کام تو آئین کی تشریح ہو لیکن وہ آئین لکھنے کا کام بھی کرتی ہو۔ آرٹیکل تریسٹھ اے میں منحرف ہونے اور اس کی سزامقرر کردی گئی ہو لیکن عدلیہ کہے کہ ہم اس میں ووٹ شمار نہ کرنے کا اضافہ کردیتے ہیں تاکہ پنجاب میں بننے والی حکومت ہی گرجائے۔ ایسی عدلیہ کہاں ملے گی جو پہلے اپنے فیصلوں سے بحران پیدا کرے اور پھر خود ہی اس بحران سے نکلنے کے فیصلے کرے جو مزید بحران کو جنم دیں اور اس طرح بحرانوں کا یہ سائیکل چلتا ہی رہے۔ ایسی عدلیہ کہاں ملے گی جو ہمیں دائروں میں گھومتے رہنے کا موقع فراہم کرے۔

ایسی عدلیہ کہاں ملے گی جس کو ایک بار ایک شخص رات کو کھلنے کا طعنہ دے اور وہ اس قدر خوف زدہ ہوجائے کہ عدالت میں اس کا ذکر کرے اور اس قدر ڈر جائے کہ جب بھی وہ جماعت رات کے وقت عدالت کا دروازہ کھولنے کی بات کرے تو عدالت رجسٹرارکو وقت سے پہلے ہی عدالت پہنچادے اور وہ عدالت میں بیٹھ کر پٹیشن تیار ہونے کاانتظارکرے۔ ایسی عدلیہ کہاں ملے گی  جس پررفیق تارڑ سے بریف کیس لینے کا الزام ہو۔ ایسی عدلیہ کہاں ملے گی جس پر شہبازشریف کے ٹیلی فون پر فیصلے لینے کا الزام ہو۔ ایسی عدلیہ کہاں ملے گی جس کاسربراہ بابا رحمتا بن کر ڈیم بناتا پھرے۔ایسی عدلیہ کہاں ملے گی جس کاسربراہ میڈیکل کالجوں اوراسپتالوں پر چھاپے مارتا پھرے۔ایسی عدلیہ کہاں ملے گی جو واٹس ایپ پر جے آئی ٹی بنوائے۔بلیک لاڈکشنری سے نہ لینے والی تنخواہ پر ملک کا وزیراعظم نااہل کردے۔جو ایک جج کی بلیک میل کرنے فیصلے لینے کی ویڈیودیکھ کر بھی کچھ نہ کرے۔جو پانامہ میں شامل چار سومیں سے ایک کا انتخابات کرکے سزادے اور باقی تین سوننانوے کو بھول جائے۔

ایسی عدلیہ کہاں ملے گی جو اپنے ہی ایک بھائی جج کو انصاف نہ دے سکے اور وہ جج انصاف کی راہ تکتاتکتا ریٹائر ہوجائے۔اور ایسی عدلیہ کہاں ملے گی جو سیاسی مقدمات کا فیصلے دیتے وقت پارٹی کے سربراہ کے بجائے اسمبلی میں موجود پارلیمانی پارٹی کوطاقتوراور محترم قراردے لیکن اپنی سپریم کورٹ کے لیے سب اختیار اپنے پاس رکھنے کو ترجیح دے اوراس کی اپنی عدالتی پارٹی کے باقی ججز انصاف برتنے کے لیے اسی کو خط لکھتے رہیں۔ ایسی عدلیہ کہاں ملے گی جس پر بینچ فکسنگ کے الزامات لگیں لیکن وہ کسی کوسننے کوتیار نہ ہو۔اس لیے اتنی ”فعال“اور ”منصف“ عدلیہ کو انصاف کی فراہمی میں ایک سوتیسواں نمبر دینا سوائے پراپیگنڈے کے اور کیا ہوسکتا ہے؟

نوٹ:عدلیہ اور ججز بہت ہی محترم ہیں میں یا کوئی اور شخص ان کی توہین کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ یہ کالم عوام کے اس تاثر کو بیان کرتا ہے جو اس وقت بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں پایا جاتا ہے۔لیکن اس کا یہ مقصد بھی نہیں سیاستدان  غلطیوں سے مبراہیں۔

Friday, July 15, 2022

By Elections in 20 Seats of Punjab Assembly

 

پنجاب کے 20ضمنی حلقوں کی مکمل تفصیلات

10امیدوارایسے ہیں جو2018میں آزاد جیت کر پی ٹی آئی میں شامل ہوئےتھے

بیس میں سے صرف چھ حلقے ایسے ہیں جن کے ایم این ایزکا تعلق مسلم لیگ ن سے ہے

ایک حلقے کے ایم این اے پیپلزپارٹی سے باقی 13حلقوں کے ایم این ایز پی ٹی آئی سے ہیں

ان تیرہ میں سے تین ایم این اے ایسے ہیں جو منحرف ہیں

پانچ سے چھ سیٹوں پر مقابلہ انتہائی سخ ہے ان میں دولاہوراور باقی جنوبی پنجاب کی سیٹیں ہیں

3حلقے ایسےہیں یہاں پی ٹی آئی نے ن لیگ کے سابق امیدواروں کو ٹکٹ دیا ہے

بیس کے بیس حلقوں میں عمران خان اور مریم نوازنے خود جاکر الیکشن مہم میں حصہ لیا اور جلسے کی

       حلقہ پی پی 7 راولپنڈی 

 

مسلم لیگ ن کے امیدوار: راجا صغیراحمد

پی ٹی آئی کے امیدوار :کرنل (ر) شبیراعوان

2018کے نتائج

ن لیگ کے امیدوارراجا صغیرنے یہ سیٹ دوہزاراٹھارہ میں آزادحیثیت میں 43ہزار3سو63ووٹ لےکر جیتی تھی اور پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تھے۔

دوسرے نمبرپراس وقت ن لیگ کے راجا محمد علی نے 42ہزار4سو59ووٹ لیے تھے

تیسرے نمبرپرپی ٹی آئی رہی تھی پی ٹی  آئی کےغلام مرتضیٰ ستی نے40ہزار5سو28 ووٹ لیے تھے

چوتھے نمبرپر ٹی ایل پی رہی تھی

اس وقت جیتنے والے راجا صغیرن لیگ کے امیدوارہیں جبکہ پی ٹی  آئی نے اپنا امیدوارتبدیل کیاہے پی ٹی آئی کے امیدوار کرنل شبیرنے پیپلزپارٹی کی طرف  سے 2008کا الیکشن لڑاتھا اور ایم پی اے منتخب ہوئے تھے۔ بعدمیں کرنل شبیر پی ٹی آئی میں شامل  ہوگئے۔

یہ حلقہ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 57کے نیچے ہے یہاں پی ٹی آئی کے صداقت علی عباسی ایم این اے ہیں 

2۔۔۔ حلقہ پی پی 83خوشاب ٹو

 

مسلم لیگ ن کے امیدوار: ملک امیرحیرر سانگھا

پی ٹی آئی کے امیدوار  : ملک حسن اسلم

2018 کے نتائج

یہ سیٹ آزاد امیدوارملک غلام رسول سانگھا نے 68ہزار9سو59ووٹ لےکر جیتی تھی بعد میں وہ پی ٹی آئی میں شامل ہوگئے

اس بار وہ خود الیکشن نہیں لڑرہے بلکہ ان کی جگہ ان کا بیٹا لڑرہا ہے

دوسرے نمبرپرن لیگ کے آصف ملک نے47ہزار6سو84ووٹ حاصل کرکے رہے۔

تیسرے نمبر پرآزاد امیدوار ملک ظفراللہ تھے جنہوں نے 10زاہرووٹ حاصل کیے

پی ٹی آئی اس حلقے میں پانچویں نمبر رہی تھی اور اس نے صرف 8ہزارووٹ حاصل کیے تھے

جبکہ چوتھے نمبر پر ٹی ایل پی آئی تھی

پی ٹی آئی کے امیدواراس ضمنی الیکشن میں اسی حلقے کے ایم این اے ملک عمراسلم کے بیٹے ہیں اس حلقے کا ایم این اے بھی پی ٹی آئی کاہی ہے۔

اس حلقے میں سانگھا خاندان کافی مضبوط ہے اور اس بار بھی کامیابی کا امکان ہے۔

 

3---حلقہ پی پی 90بھکرٹو

 

مسلم لیگ کے امیدوار: سعید اکبر نوانی

پی ٹی آئی کے امیدوار: عرفان اللہ نیازی

2018 کے نتائج

اس حلقے میں سعید اکبر نوانی59350ووٹ لےکر آزاد حیثیت میں کامیاب ہوئےتھے جو بعد میں پی ٹی آئی میں شامل ہوگئے۔

دوسرے نمبرپرن لیگ کے عرفان اللہ نیازی نے44ہزار ووٹ لیے تھے اب عرفان نیازی ناراض ہوکر لوٹے ہوکر پی ٹی آئی کی طرف سے الیکشن لڑرہےہیں

پی ٹی آئی اس حلقے میں تیسرے نمبرپررہی تھی ۔ پی ٹی آئی کی طرف سے احسان اللہ خان نے 40ہزارووٹ لیے تھے۔

اس بار سعید اکبرنوانی کو سخت مقابلے کا سامنا ہے کیونکہ ن لیگ کا امیدوار ناراض ہوکر پی ٹی آئی کی طرف ہے اور ن لیگ کے ووٹ تقسیم ہونے کا خدشہ بھی ہے۔

سعید اکبر نوانی ترین گروپ کے ترجمان بھی ہیں۔

یہ حلقہ این اے 97میں آتا ہے جس کا ایم این اے بھی پی ٹی آئی کا ثناللہ مستی خیل ہے

 

 

4۔۔۔۔ حلقہ پی پی 97 فیصل اباد ون

 

مسلم لیگ ن کے امیدوار: اجمل چیمہ

پی ٹی آئی کےامیدوار: علی افضل ساہی

اجمل چیمہ سابق صوبائی وزیربھی رہے ہیں

2018کے نتائج

دوہزار اٹھارہ میں اجمل چیمہ نے 42ہزاردوسو73ووٹ لے کرآزادکامیابی حاصل کی اور پی ٹی آئی میں شامل ہوگئے

دوسرے نمبرپرپی ٹی آئی کے علی افضل ساہی رہے تھے جنہوں نے 37ہزارووٹ لیے تھے

تیسرے نمبرپرمسلم لیگ ن تھی جس کے آزاد علی تبسم نے 35ہزارووٹ لیے تھے۔

اس حلقے میں اس بار علی افضل ساہی کی پوزیشن کافی مضبوط ہے کیونکہ ن لیگ یہاں بھی تقسیم ہے۔ اور پچھلے الیکشن میں بھی علی افضل صرف چھ ہزار ووٹ سے ہارے  تھے۔

یہ حلقہ این اے 101کے نیچے ہے یہاں پی ٹی آئی کے عاصم نذیرایم این اے ہیں ۔ عاصم نذیر بھی منحرف اراکین میں شامل ہیں جنہوں نے استعفیٰ نہیں دیا تھا اور اگلا الیکشن بھی ن لیگ سے ہی لڑیںگے۔

 

5۔۔۔۔حلقہ پی پی 125 جھنگ ٹو

 

مسلم لیگ کے امیدوار:فیصل حیات جبوآنہ

پی ٹی  آئی کے امیدوار: محمد اعظم چیلا

2018 کے نتائج

یہ حلقہ فیصل حیات جبوآنہ نے 50ہزارووٹ لےکرآزاد حیثیت میں جیتاتھا بعد میں وہ پی ٹی ئی میں شامل ہوگئے

دوسرے نمبر پرپی  ٹی آئی کے اعظم چیلا نے 38ہزار4سو61ووٹ لیے تھے

اس حلقے میں اٹھارہ میں بھی ون ٹوون مقابلہ تھا اور جبوآنہ نے بارہ ہزار کی لیڈسے جیتا تھا اٹھارہ میں اس حلقے میں ن لیگ کا امیدوار نہیں تھا اس بات بھی جبوآنہ کی پوزیشن بہتر ہے

اس حلقے میں دوہزار تیرہ میں ن لیگ کے ٹکٹ پر ایم پی اے بننے والے افتخار بلوچ اس بار آزاد حیثیت میں الیکشن لڑرہے ہیں اور انہیں ٹی ایل پی کی سپورٹ حاصل ہے۔

یہ حلقہ بھی پی ٹی آئی کے ایم این اے کے نیچے ہے یہاں سابق وفاقی وزیرپی ٹی آئی کے صاحبزدہ محبوب سلطان ایم این اے ہیں

 

6۔۔۔حلقہ پی پی 127 جھنگ فور

 

مسلم لیگ ن کے امیدوار: مہر اسلم بھروانہ

پی ٹی آئی کے امیدوار :محمد نوازبھروانہ

2018 کے نتائج

دوہزار اٹھارہ میں اس حلقے سے مہر اسلم بھروانہ 27ہزار3سو53ووٹ لے کرآزاد حیثیت میں کامیاب ہوئے تھے

دوسرے نمبر پی ٹی آئی کے محمد  نوازبھروانہ رہے تھے جنہوں نے 26ہزار7سو65ووٹ لیے تھے جیت کامارجن صرف پانچ سوووٹوں کا تھا

اس بار دونوں ہی وہی امیدوار ہیں جنہوں نے اٹھارہ میں مقابلہ کیا تھا بس یہ فرق ہے کہ اسلم بھروانہ آزاد لڑے تھے اب وہ ن لیگ کے امیدوار ہیں

اس حلقے میں ن لیگ کے امیدوارمحمد سلیم طاہر نے صرف 19سو49ووٹ لیے تھے ۔اگر مہراسلم بھروانہ اپنا پورا ووٹ بینک قائم رکھیں اور ن لیگ کے انیس سوووٹ بھی شامل ہوں تب جیت ممکن ہوسکتی ہے ، ویسے مقابلہ انتہائی سخت ہوگا۔

یہ حلقہ بھی پی ٹی آئی کی ایم این اے غلام بی بی بھروانہ کے نیچے ہے۔

 

 

7۔۔۔۔ حلقہ پی پی 140 شیخوپورہ سکس

 

مسلم لیگ کے امیدوار: میاں خالد محمود

پی ٹی آئی کے امیدوار: خرم ورک

2018 کے نتائج

2018میں  اس حلقے میں میاں خالد نے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی تھی اور32ہزار8سو62ووٹ لیے تھے

دوسرے نمبرپرمسلم لیگ ن کے یاسر اقبال نے 26ہزار29ووٹ لیے تھے

میاں خالد محمود نے دوہزار دو میں ق لیگ سے پہلی مرتبہ الیکشن لڑاتھا اور ایم پی اے منتخب  ہوئے تھے انہوں نے اٹھارہ میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر لڑااور کامیاب ہوئے تھے

میاں خالد محمود کا تعلق علیم خان گروپ سے ہے

یہ حلقہ این اے 121کے نیچے ہے یہاں ن لیگ کے میاں جاوید لطیف ایم این اے ہیں

اس حلقے میں میاں خالد کی جیت کا امکان ہے

 

8۔۔۔۔ حلقہ پی پی 158 لاہورپندرہ

 

مسلم لیگ ن کے امیدوار: احسن شرافت

پی ٹی آئی کے امیدوار :میاں عثمان اکرم

میاں عثمان اکرم پی ٹی آئی کے سابق وزیرمیاں محمودالرشید کے داماد ہیں

2018کے نتائج

اٹھارہ میں اس حلقے سے علیم خان نے 52ہزار2سو99ووٹ لےکرکامیابی حاصل کی تھی

دوسرے نمبر پرمسلم لیگ ن کے احسن شرافت تھے جنہوں نے45ہزار2سو28ووٹ لیے تھے

اس بار علیم خان الیکشن نہیں لڑرہے اس لیے ٹکٹ مسلم لیگ ن کے سابق ٹکٹ ہولڈر احسن شرافت کو ہی دیا گیا ہے۔ علیم خان ن لیگ کے امیدوارکی سپورٹ کررہے ہیں

پی ٹی آئی کا امیدوآر اس حلقے میں کافی کمزور ہے اس لیے لاہور سے یہ حلقہ میں ن لیگ کی پوزیشن مضبوط ہے

یہ حلقہ مسلم لیگ  ن کے ایاز صادق کے نیچے ہے

 

9۔۔۔۔ حلقہ پی پی 167لاہورچوبیس

 

مسلم لیگ ن کے امیدوار: نذیرچوہان

پی ٹی آئی کے امیدوار: شبیر گجر

2018کے نتائج

اٹھارہ میں اس حلقے میں نذیر چوہان پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئےتھے انہوں نے40ہزار7سو4ووٹ لیےتھے

دوسرے نمبر پر مسلم لیگ ن کے میاں سلیم تھے جنہوں نے38ہزار4سوووٹ لیے تھے

اس بار میاں سلیم نذیر چوہان کی حمایت کررہے ہیں نذیرچوہان کی جیت کے امکان ففٹی ففٹی ہیں کیوں کہ نذیر چوہان کئی قسم کے تنازعات میں شامل رہے ہیں

نذیر چوہان کے مد مقابل شبیر گجرپہلی بارمیدان میں ہیں انہیں ایک پیسے والی پارٹی سمجھ کر ٹکٹ دیا گیا ہے

شبیر گجر کوجوہرٹاون اور نذیرچوہان کوٹاون شپ اور گرین ٹاون کے علاقوں میں برتری حاصل ہے

یہ حلقہ ن لیگ کی ایم این اے شائستہ پرویز ملک کے نیچے ہے یہاں ابھی آٹھ ماہ پہلے ہی الیکشن ہوا تھا جو ن لیگ نے جیتا تھا۔

 

10۔۔۔حلقہ پی پی 168لاہورپچیس

 

مسلم لیگ ن کے امیدوار: ملک اسد کھوکھر

پی ٹی آئی کے امیدوار : ملک نوازاعوان

2018 کے نتائج

اس حلقے سے اٹھارہ کے بعد سعد رفیق نے صوبائی نشست چھوڑی تھی اس پر ضمنی الیکشن ہوئےجو اسد کھوکھرنے پی  ٹی  آئی کے ٹکٹ پر جیتا انہوں نے 17ہزار5 سو79ووٹ حاصل کیے تھے

دوسرے نمبرپرن لیگ کے رانا خالد ایڈووکیٹ تھے انہوں نے 16ہزار8سو92ووٹ حاصل کیے تھے

اس حلقے میں اسد کھوکھر کی پوزیشن مضبوط ہے کیونکہ ان کے مقابلے میں امیدوار نیاہے اوراسد کھوکھرکواپنی برادری اور ن لیگ کی مکمل حمایت حاصل ہے کیونکہ یہ سیٹ خواجہ سعد رفیق نے چھوڑی تھی اور وہ اور ان کے بھائی اسد کھوکھرکی مہم چلارہے رہے ہیں

یہ حلقہ ن لیگ کے خواجہ سعد رفیق اورشائستہ پرویز کے نیچے آتا ہے حلقے میں ن لیگ کوکبھی شکست نہیں ہوئی اب تک

 

11۔۔۔۔ حلقہ پی پی 170 لاہورستائیس

 

مسلم لیگ ن کے امیدوار: امین چودھری

پی ٹی آئی کے امیدوار : ملک ظہیر کھوکھر

2018 کے نتائج

اس حلقے میں امین چودھری نے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی تھی انہوں نے25ہزارایک سو80 ووٹ لیے تھے۔ امین چودھری کپتان کے سابق قریبی ساتھی عون چودھری کے بھائی ہیں۔

دوسرے نمبر پر ن لیگ کے عمران جاوید تھے انہوں نے 20ہزار7سو30 ووٹ حاصل کیے تھے

اس حلقے میں پی ٹی آئی  کی پوزیشن کافی بہتر ہے گوکہ ن لیگ کے سابق ٹکٹ ہولڈر عمران جاوید خود مہم چلارہے ہیں لیکن ان کے مدمقابل ملک ظہیر عباس کھوکھرہیں جن کو کھوکھربرادری کی حمایت حاصل ہے

یہ حلقہ پرائیویٹ ہاوسنگ سوسائیتیوں ویلنشیا ، این ایف سی ، واپڈاٹاون جیسے پوش علاقوں پر مشتمل ہے یہاں پی  ٹی آئی کی کافی  اکثریت ہے۔

ملک ظہیرعباس بیت المال کے چیئرمین بھی رہ چکے ہیں۔

یہ حلقہ بھی ن لیگ کے ایم این اے رانا مبشر کے نیچے ہے

                        

12۔۔۔۔ حلقہ پی پی 202ساہیوال سات

 

مسلم لیگ ن کے امیدوار:ملک نعمان لنگڑیال

پی ٹی آئی کے امیدوار :میجرریٹائرڈ غلام سرور

2018کے نتائج

اس حلقے میں ملک نعمان لنگڑیال نے 57ہزار5سو40ووٹ لےکرپی ٹی آئی کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی تھی

دوسرے نمبرپرن لیگ کے شاہد منیر رہے تھے انہوں نے 44ہزار3سو49ووٹ لیے تھے

اس حلقے میں ایک تیسرا امیدوار بھی ہے اس کا نام عاد سعید گجر ہے جو پی ٹی آئی کے ٹکٹ کے امیدوار تھے لیکن ٹکٹ میجر غلام سرور کو مل گیا تو وہ ناراض ہوکر آزاد الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں

میجر غلام سرور نے سیاسی کیریئر کا آغاز جماعت اسلامی سے کیا تھا اب وہ پی ٹی آئی سے لڑرہے ہیں

اس حلقے میں ن لیگ کے جیتنے کے امکانات ہیں کیونکہ پی ٹی  آئی کا ووٹ تقسیم ہونے کا خدشہ موجود ہے

یہ حلقہ پی ٹی آئی کےایم این اے مرتضیٰ اقبال کے نیچے ہے

                        

13۔۔۔۔ حلقہ پی پی 217ملتان سات

 

مسلم لیگ ن کے امیدوار: محمد سلمان نعیم

پی ٹی آئی کے امیدوار:زین قریشی

2018کے نتائج

اس حلقے میں سلمان نعیم نے آزاد حیثیت میں پی  ٹی  آئی کے وائس چیئرمین اور سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کو شکست دی تھی انہوں نے35ہزار2سو34ووٹ لیے تھے

دوسرے نمبرپر شاہ محمود قریشی نے 31ہزار 7 سو16ووٹ لیے تھے

ن لیگ کے تسنیم کوثر اکیس ہزار ووٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پررہے تھے

یہ ملتان کا حلقہ ہے یہاں شاہ محمود قریشی نے اپنی جماعت پر ہی خود کوہرانے کا الزام لگایا تھا اور اب ان کے بیٹے الیکشن لڑرہے ہیں زین قریشی اس وقت ایم این اے بھی ہیں

اس سیٹ پر بھی  سخت مقابلہ ہوگا زین قریشی پر دس ووٹ کے بدلے ایک موٹرسائیکل دینے کاالزام لگاہے جس کا الیکشن کمیشن نے نوٹس بھی لیا  ہے

اس حلقے میں دوبارہ سلمان نعیم کی پوزیشن مضبوط ہے سلمان نعیم جہانگیر ترین کے قریبی سمجھے جاتے ہیں۔

یہ حلقہ پی ٹی آئی کے شاہ محمود قریشی کے نیچے ہے

 

 

14۔۔۔۔ حلقہ پی پی224لودھراں ون

 

مسلم لیگ ن کے امیدوار:زوارحسین وڑائچ

پی ٹی آئی کے امیدوار:عامر اقبال شاہ

یہ حلقہ جہانگیرترین کا آبائی حلقہ ہے اورزوارحسین وڑائچ ترین کے قریبی ساتھی ہیں ان کے مقابلے میں پی ٹی آئی کے امیدوار عامر اقبال شاہ کا تعلق ن لیگ سے تھا وہ اٹھارہ میں ن لیگ کے امیدوار تھے ان کے والد اقبال شاہ نے جہانگیرترین کے بیٹے علی ترین کو ضمنی الیکشن میں شکست دی تھی لیکن اب وہ ناراض ہوئے ن لیگ سے تو پی ٹی آئی نے انہیں ٹکٹ دیدیا یہ بھی لوٹے ہیں

2018 کے نتائج

اٹھارہ میں اس حلقے میں زوار وڑائچ نے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی  تھی انہوں نے 60ہازر4سو82ووٹ حاصل کیے تھے

دوسرے نمبر پر ن لیگ کے عامراقبال شاہ رہے  تھے انہوں نے48ہزارووٹ حاصل کیے تھے

اب بھی یہ دونوں امیدوار ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں لیکن ان کی پارٹیاں اب تبدیل ہوچکی ہیں۔ اس لیے صورتحال اس حلقے میں بہت دلچسپ ہے لیکن ترین کا یہ آبائی حلقہ ہے اس لیے وہ پورازور لگارہے ہیں کہ یہاں ناکامی نہ ہو ان کو۔اس حلقے میں ن لیے کے کانجوبرادران کا بھی کافی اثر ورسوخ ہے۔

یہ حلقہ این اے 154کے نیچے ہے یہاں ن لیگ کے عبدالرحمان کانجو ایم این اے ہیں۔

 

15۔۔۔حلقہ پی پی 228لودھراں تھری

 

مسلم لیگ ن کے امیدوار:نذیر احمد بلوچ

پی ٹی آئی کے امیدوار:کیپٹن جاوید خان

جاوید خان 2013میں پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تھے اور اس سے پہلے یہ بھی ترین گروپ میں شامل  رہے ہیں

2018کے نتائج

اٹھارہ میں نذیر بلوچ نے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن  جیتا تھا اور43ہزارایک سو69ووٹ لیے تھے

دوسرے نمبر پرن لیگ کے سید رفیع الدین تھے جنہوں نے 41ہزار ووٹ حاصل کیے تھے

اس حلقے کی خاص بات یہ ہے کہ ن لیگ کے سابق ٹکٹ ہولڈرسید رفیع الدین ن لیگ سے ناراض ہوکر آزاد لڑرہے ہیں یہ بھی ایک مضبوط امیدوار ہیں اس لیے یہاں ن لیگ کی پوزیشن کافی کمزور ہے اور یہ سیٹ ہاتھ سے جاسکتی ہے

یہ حلقہ پی ٹی آئی کے ایم این اے میاں شفیق کے نیچے آتا ہے

 

 16۔۔۔حلقہ پی پی 237بہاولنگرون

 

مسلم لیگ ن کے امیدوار:فداحسین

پی ٹی آئی کے امیدوار:سید آفتاب رضا

2018کے نتائج

اٹھارہ میں فداحسین نے آزاد حیثیت میں الیکشن میں کامیابی حاصل کرکے پی ٹی آئی میں شمولیت کی تھی انہوں نے 56ہزار4سو11ووٹ لیے تھے

دوسرے نمبرپرطارق عثمان رہے جن کا تعلق پی ٹی آئی سے تھا انہوں نے 47ہزار6 سو30ووٹ لیے تھے

اس حلقے میں فدا حیسن کی پوزیشن مضبوط ہے فدا حسین تین مرتبہ اسی حلقے سے مسلسل الیکشن جیت رہے ہیں اور اس بار بھی انہیں کے چانسز ہیں کیونکہ ان کے مدمقابل آفتاب پہلی مرتبہ الیکشن لڑرہےہیں پی ٹی آئی نے اپنے پچھلے امیدوار طارق عثمان کو ٹکٹ نہیں دیا اس لیے وہ ناراض ہیں۔

یہ حلقہ بھی  پی ٹی آئی کے ایم این اے غفار وٹو کے نیچے آتا ہے۔

 

17۔۔۔۔ حلقہ پی پی 272مظفرگڑھ پانچ

 

مسلم لیگ ن کے امیدوار:زہرہ باسط بخاری

پی ٹی آئی کے امیدوار: معظم خان جتوئی

2018کے نتائج

یہ حلقہ بڑا دلچسپ ہے یہاں سے سید باسط بخاری این اے اورپی پی دونوں سیٹوں پر کامیاب ہوئے تھے لیکن انہوں نے قومی اسمبلی کی  سیٹ رکھی اور پنجاب کی  یہ سیٹ چھوڑدی تھی اس سیٹ پر ان کی والدہ نے ضمنی الیکشن لڑا اوروہ جیت گئیں

اس بار انہوں نے اپنی اہلیہ کو الیکشن میں اتاراہے اور خود ان کی انتخابی مہم چلارہے ہیں یہاں تک  کہ کسی اشتہارپر ان کی اہلیہ کی تصویرتک نہیں ہے اہلیہ کی جگہ سید باسط کی اپنی تصاویر ہیں

سید باسط بخاری منحرف ایم این اے ہیں اور حال ہی میں کشمیر  کمیٹی کے چیئرمین منتخب  ہوئے ہیں

اس حلقے میں ان کے بھائی بھی آزاد حیثیت میں الیکشن لڑرہےہیں

اس حلقے میں معظم جتوئی پی ٹی آئی کے امیدوارہیں جو پیپلزپارٹی کے سابق وزیرقیوم جتوئی کے کزن ہیں

اس حلقےمیں کسی پارٹی کا ووٹ نہیں  ہے بلکہ یہاں امیدواروں کا ذاتی اوربرادری کا ووٹ ہے ۔

اس حلقے میں بتول باسط کی جیت کے چانسز زیادہ ہیں۔

 

 

 

18۔۔۔ پی پی 273 مظفرگڑھ چھ

 

مسلم لیگ ن کے امیدوار:سبطین رضا

پی ٹی آئی کے امیدوار:یاسرخان جتوئی

2018کے نتائج

اٹھارہ میں سبطین رضا نے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر36ہزار ووٹ لےکر یہ سیٹ حاصل کی تھی اب وہ منحرف ہوکر دوبارہ ن لیگ سے لڑرہےہیں

دوسرے نمبر پرآزاد امیدوار رسول بخش تھے جنہوں نے 26ہزار ووٹ لیے تھے

پی ٹی آئی کے امیدوار یاسر جتوئی اس سے پہلے پیپلزپارٹی میں تھے یہ تیرہ میں پیپلزپارٹی کے ایم پی اے تھے

حلقے میں سبطین رضا کی پوزیشن تھوڑی بہتر ہے کیونکہ پی ٹی آئی کے امیدوار کا تعلق بھی پی ٹی آئی سے نہیں ہے لیکن جتوئی برادری کی سپورٹ انہیں حاصل ہے ۔

یہ حلقہ پیپلزپارٹی کےایم این اے رضا ربانی کھرکے نیچے آتا ہے

 

19۔۔۔ حلقہ پی پی 282لیہ تھری

 

مسلم لیگ ن کے امیدوار:محمد طاہررندھاوا

پی ٹی  آئی کے امیدوار:قیصرعباس مگسی

2018کے نتائج

اٹھارہ  میں طاہررندھاوا نے آزاد حیثیت میں الیکشن جیت کرپی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی انہوں نے 37ہزار6سو7ووٹ لیے تھے

دوسرے نمبر پرپی  ٹی  آئی کے قیصر عباس تھے جنہوں نے 26ہزار9سو92ووٹ لیے تھے

تیسرے نمبرپرن لیگ محمد ریاض تھے جنہوں نے 25ہزار ووٹ لیے تھے

اس حلقے میں پی ٹی آئی کا امیدوار وہی ہے جو اٹھارہ میں تھا۔لیکن قیصر عباس پہلے ن لیگ سے دوبار ایم پی اے رہے ہیں انہوں نے آٹھ اور تیرہ میں ن لیگ  کے ٹکٹ پر الیکشن لڑے اور جیتے لیکن وہ اٹھارہ میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر لڑے لیکن  ہار گئے

اس حلقے میں طاہررندھاوا کا اپنا ووٹ بینک ہے لیکن ن لیگ کا ٹکٹ محمد ریاض کو نہ ملنے پر مسائل ہوسکتے ہیں

یہ حلقہ پی ٹی آئی کے ایم این اے نیازاحمد جھکڑکے نیچے آتا ہے۔

 

20۔۔۔۔۔ حلقہ پی پی 288ڈیرہ غازی خان چار

 

مسلم لیگ ن کے امیدوار:عبدلقادرخان کھوسہ

پی ٹی  آئی کے امیدوار:سیف الدین خان کھوسہ

2018کے نتائج:

اٹھارہ میں اس حلقے میں محسن عطا کھوسہ آزاد حیثیت میں کامیاب ہوئے اورانہوں نےپی ٹی  آئی میں شمولیت کی انہوں نے 39ہزار3سو96ووٹ لیے تھے

دوسرے نمبر پرپی ٹی آئی کے سیف الدین کھوسہ رہے تھے انہوں نے 30ہزار ووٹ لیے تھے

اس حلقے کے ایم این اے امجد فاروق کھوسہ کا تعلق بھی  پی ٹی آئی سے ہے وہ بھی منحرف ہونے والوں میں شامل ہیں

اس حلقے میں اٹھارہ میں جیتے والے محسن کھوسہ الیکشن نہیں لڑرہے بلکہ ایم این اے امجد  فاروق کھوسہ نے اپنے بیٹے قادر کھوسہ کو ن لیگ کے ٹکٹ پر کھڑا کیا ہے

اس حلقے میں پی ٹی آئی بمقابلہ پی ٹی آئی ہے اور دونوں طرف لوٹے ہیں

سیف کھوسہ سابق گورنر پنجاب ذوالفقار خان کھوسہ کا بیٹا ہے ان کا تعلق ن لیگ سے بڑی دیر تک  رہاہے

اور سیف کھوسہ تو ایک الیکشن پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر بھی لڑ چکے ہیں

اس حلقے میں بڑا تگڑا مقابلہ ہے کیونکہ دونوں طرف کھوسہ برادری کے ےہی امیدوار ہیں، لیکن قادر کھوسہ پہلی بار لڑرہے ہیں اور نوجوان بھی ہیں اور ان کے والد حلقے کے ایم این اے بھی ہیں جس کا فائدہ انہیں ہوسکتا ہے۔